Wednesday, 2 January 2013

YAHI TO HAI MAJBURI . . . . . .


              آنا
یہی تو ہے مجبوری !
"آنا" یہ وہ نام ہے جس سے میں اپنی دادی جان کو بلاتا ہوں۔بچپن سے "آنا"  "آنا" بولتے آرہا ہوں ، ہمیں اسکی عادت سی ہے ۔ مگر جب کویئ اور یہ سنتاہے تو پتہ نہیں کیوں اسے عجیب سا لگتا ہے اور وہ مشکرانے لگتا ہے۔ بچپن سے مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آنا بولتا ہوں تو لوگ ہنستے کیوں ہیں ؟

 مگر دھیرے دھیرے ہوش سنبھالنے لگا اور لوگوں کے زہنوں کو سمجھنے لگا آنے جانے ملنے جلنے کی کہانیاں شروع ہو گیں ۔ وقت چلتے گیا  دن گزرتے گیا  عام باتیں سمجھ میں آنے لگیں عام کام کرنے لگا۔ مگرپھر جب میں نے اوروں کی دادیوں کو دیکھا تو مجھے ایسا لگنے لگا کہ "آنا" ہم سے اس طرح نہیں ملتی ہیں جس طرح اوروں کی۔میں دوسرے بچوں کو اپنی دادیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے دیکھتا ، انھیں مشکراتے دیکھتا ، دوڑتے اچھلتے دیکھتا ، تو مجھے نہ جانے کیوں اسکا من ہی نہیں ہوتا کہ ہم بھی "آنا" کے ساتھ دوڑتے کودتے ڈانٹ کھاتے ملتے جلتے گھلتے سنبھلتے اٹھتے گرتے ہوۓ مزے کريں کیوں کہ آنا ویسی اوروں کی طرح نہیں ہیں وہ الگ ہیں اور ہم بھی انکی کم یابی کو جاننے لگے وہ ہمسے زیادہ ملتی نہیں تھیں کیوںکہ وہ ہمیں ڈانٹتی نہیں تھیں ، یا ہم ہی انسے زیادہ ملتے نہیں تھے ، اور ہمیں بہت محبّت و شفقت سے دعايں دیتیں اور ہمارے ضرورتوں کا خیال رکھتیں ہیں۔


ہمیں معلوم تھا کہ "آنا" نے اپنی زندگی میں کیا کچھ سہا ہے اور کیسے حالات میں زندگی گزارا ہے ، اور اسکا احساس مجھے اس وقت پہلی بار ہوا تھا جب میں نے
 "نور محمّد غزنوی کا سوانح حیات " پڑھا تھا جسمیں انھیوں نے کہا ہے کہ "پورے مہینے کے لیۓ صرف دو تین روپیۓ میری بیگم کےسپرد کرتا ہوں اور وہ اتنی بھولی ہیں کہ 'اف' تک نہیں کرتیں۔"
خیر ! اگر یہ بتاؤں تو میرےالفاظ کیء دریا بہا دینگے ۔ مگر میں یہ نہیں چاہتا ہوں ، خاماخواہ بارش کے موسم میں دریا بہایا جایۓ تو کہیں سیلاب نہ آجاۓ ویسے بھی بھدرک میں پانی کی کو يء کمی نہیں ہے ۔ وقت کے ساتھ الفاظ بدلتے رہینگے اور موسم کے ساتھ لوگ بھی بدل جايںگے ، سخن ور کہاں بدلتے ہیں عوام بدل جايںگے  ، ، ، ، ، ، ،

کسی بھی عورت کو اپنے گھر کی سجاوٹ دنیا میں سب سے اچھی کام لگتی ہے ، ہمارے گھر کی عورتوں کے بارے میں تو نہیں بول سکتا لیکن "آنا" کو اسکا بڑا شوق ہے وہ صرف گھرمیں نہیں بلکہ گھرکے باہر بھی اپنا ہنر آزماتی ہیں ، انھیں سوکھے پیڑ پودوں سے بڑا لگاؤ ہے ۔ گھر میں چولہ جلتا ہے کہ وہ باہر سے لکڑیاں جمع کرکے لاتی ہیں گھرمیں یعنی چولہ میں آ گ لگاتی ہیں کبھی کبھی دھواں اٹھتا ہے تو  کبھی کبھی بس شعلے خاک بن جاتے ہیں ، اور انکی بہويں گھر کی کٹّیوں سے باہر نہیں نکلتیں بس یہی وجہ ہے کہ دھواں گھر کے اندر ہی اٹھتاہے۔ اب بات تو سمجھنے والوں کے کیلۓ ہے ، جو سمجھتے ہیں سمجھيں ورنہ مجھے باتیں سمجھانی نہیں آتی۔ میری باتیں بھی اس دھویں کی طرح ہیں جنکے آنکھوں میں گیں انھیں مزہ آیا ورنہ آنکھ بند کرنے والوں کو اسکا مزہ نہیں ملتا۔


اب "آنا" کی بات ہو رہی ہے تو یہ بتادوں کہ آنا نے بہت کچھ سہا ہے ، جو میں نے پہلے کہا ہے ، مگر اب الفاظ بدل رہا ہوں موسم جو بدلنا ہے ، ، ، ، ، ،
بچپن سے "آنا" کو بہت کچھ سہتے دیکھتا آرہا ہوں ، میں بتادوں کہ حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ "آنا" کو کسی کا چمّہ سہنا پڑا تو کسی کے لیۓ ناچنا بھی پڑا یہاں تک کہ انھوں نے کسی کے شادی کے ليۓ ویڈیو ریکرڑ بھی کروایا ۔ انکی ذمّہ داریوں کا احساس مجھے پہلی بار اسوقت ہوا جب میں نے پہلی بار انکی ساڑی پہنا اور بخملہ رخشندہ بطور بہویں ، اور میرے اس احساس کا ترجمہ کرنے کا خطرہ میں نہیں اٹھا سکتا۔ پتہ نہیں کن کن کے ہاتھوں یہ لگیکا؟ کیا پتہ کل مجھے ہی اسے پھاڑ کر پھینکنا پڑے۔

خیر ! یہ تو میرا احساس تھا ایک ساس کے کردار کو اسکے کپڑے کے ذریعہ جاننے کا ، لیکن مجھے نہیں معلوم بخملہ اور رخشندہ کو کیسا احساس ہورہا ہوگا؟ یہ تو وہ لوگ اچھّی طرح بتا سکتے ہیں۔

حالات تو بد سے بدتر اسوقت ہوگۓ جب شمرین پیدہ ہوئ ۔ بات دراسل یہ ہے کہ "آنا" کو پان کھانے کا شوق ہے آخر شوق بڑی بات ہے ! اور یہ شوق اڑوس پڑوس تک پہنچ گیا۔  چونکہ "بربل والی نانی " نے بھی پان کھانا شروع کردیاتھا ، آنا کو اس بات کا ڈر ستانے لگا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ جب بھی نانی گھر آتیں تو آنا کا پان کھاتیں اور اس وجہ سے آنا کا منھ جلدی خالی ہونے والا دیر سے خالی ہونے لگا ، انھونے دھیرے ھیرے پان چبانا شروع کیا ت کہ پان کم خرچ ہو ۔اور انھوں نے پان کو  چھپانا شروع کیا اور جب بھی نانی آيئں تو پان کو چھپنا پڑتا مگر اس لکا چھپی کے کھیل کو بگاڑنے کیلۓ اللّہ تعلی نے شمرین کو پہنچادیا ۔ اور اسنے آنا کے سارےکھیل کو بگاڑنا شروع کردیا ۔ نانی جب آتیں تو" آنا" پان چھپادیتيں مگر وہ زیادہ دیر تک شمرین سے بچ نہیں پاتا اور نانی کو شمرین ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاکر دیدیتی " یہ لو نانی!  آنا نے پان چھپادیاتھا!"

(دیکھۓ یہ میرا نظریہ نہیں ، شمرین کے چھوٹے سے مغز کے اندر جو چل رہا تھا اسے میں نے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے آخر کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی ، ، ،)

بس اب اور کیا ! نہ آنا کچھ بول پاتیں اور نہ نانی کچھ بولتیں بس دونوں کے منھ لال لال!!! مگر وجہ الگ الگ کسی کا پان سے لال تو کسی کا ، ، ، ، ، ۔

اس لال لال سے یاد آیا کہ ہمارے یہاں "لال آنا" بھی ہیں ۔ مگر انھیں پان کی وجہ سے لال نہیں کہا جاتا ۔ اسکی وجہ شاید انکا بال ہے کیونکہ  انھیں مہندی لگانے کا بڑا شوق ہے ہاتھوں میں نہیں بالوں میں۔ بچپن میں تو یہی لگتا تھا کہ اسکی وجہ یہی ہوگی اور آج بھی بڑے ہوکر کچھ اور نہیں وہی وجہ لگتا ہے۔

عجیب بات ہے کہ بڑے ہونے کی بات کی تو یہ بھی یاد آیا کہ ہمارے یہاں "بڑی آنا" بھی ہیں ۔ اب اسکی وجہ مجھے نہ پان لگتا ہے اور نہ بال ۔ اسکی وجہ تو آپ سب کو معلوم ہی ہوگا اب اور کیا بتاؤں؟ لیکن بڑی آنا سے بڑے انکے شوہر "ببّا" جنکے پاس میں اور بخملہ پھنکوانے جاتے اور انکی لمبی لمبی داڑھی موچھ سہتے ہوۓ چمّہ دے کر آنا پڑتاتھا ورنہ وہ آنے نہیں ديتے ۔ کئ بار تو چھپ کر آنے کی کوشش کی مگر بچ نہیں پایا ، ، ، ،۔

اب" آنا" سے "ببّا" تک پہنچ گیا ہوں تو یہ بھی بتا دوں کہ جو روز بروز" آنا" کو اپنی خوابوں میں دیکھتے ہونگے وہ یہاں کے بچےّ ہیں ، کیوں کہ رات کو ناریل چوری کرنے کے بعد "آنا" کی گالیاں سن کر صبح اسکی حالت دوسرے دروازے کے بعد بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہوگا ۔ اب سمجھنے والے سمجھيں ، مجھے باتیں سمجھانی نہیں آتی۔ 
 کیونکہ  موسم بدلتا رہتا ہے ، زمانہ بدلتا رہتا ہے ، کبھی سیلاب تو کبھی بنجر بھی ہو جاتا ہے ، سخن ور نہیں بدلتے قلم بدل جاتا ہے۔ سمجھنے والے سمجھيں ، مجھے باتیں سمجھانی نہیں آتی  ، ، ، ، ، ،۔ اب اگلے سفہ پے متوجہّ دیں !
آنا سے مخاتب ہو کر شاعری لکھنے کا خطرہ اٹھا رہا ہوں ۔

بچپن بڑھاپا دو دن کی دوری ہے
اپنا من چھپانا اسکی مجبوری ہے۔

کیا کروں کچھ سنتی سمجھتی نہیں
نہ دل میں سکون نہ زہن میں تبدیلی ہے۔

نہ سفرکاشوق ہے نہ محفل کا زوق
کچھ دنوں سے تن من کی اکیلی ہے۔


زہن کا بوجھ ہاتوں میں لیۓپھرتی ہے
دس ہاتھوں سے اٹھنے والی ہتھیلی ہے۔






بچپن بڑھاپا دو دن کی دوری ہے
اپنا من چھپانا اسکی مجبوری ہے۔

اب آ گے خطرہ اٹھانے کا ہمّت دکھا رہا ہوں !  کیونکہ اس مجبوری کو بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے !

ایک ہاتھ میں شربت دوسرے میں پانی
کسے کہاں ڈالوں یہی تو ہے مجبوری !

بھلا کس شمع کو کروں روشن؟
نہ ہوجاۓپروانوں میں دوری ۔
یہی تو ہے مجبوری !
کسےجام پلاؤں کسے میوے کھلاؤں
نہ رہ جاۓمنّت کسی کی ادھوری۔
یہی تو ہے مجبوری !
کوئ بتاۓ کیسے کروں پھلوں کے ٹکڑے؟
چل نہ جاۓ کلیجے میں کسی کے چھوری۔
یہی تو ہے مجبوری !

سمجھنے والے سمجھيں ، مجھے باتیں سمجھانی نہیں آتی  ، ، ، ، ، ،۔
کیونکہ
بےنقاب جو مرغ مسلّم
پردے میں ہے وہ ہلوا پوری!
یہی تو ہے مجبوری !
سمجھنے والے سمجھيں ، مجھے باتیں سمجھانی نہیں آتی  ، ، ، ، ، ،۔
یہی تو ہے مجبوری ! یہی تو ہے مجبوری !

No comments:

Post a Comment